وہ ذائقہ بھی عجب صدق ناگوار میں تھا
وہ ذائقہ بھی عجب صدق ناگوار میں تھا
غبار سا کوئی مفہوم حرف زار میں تھا
نہ تو شریک عداوت تھا اور نہ پیار میں تھا
ترا یقین تجارت میں کاروبار میں تھا
بلندیوں سے گرا بھی تو خوش گوار لگا
مرے زوال کا اسلوب آبشار میں تھا
کسے دماغ کہ تہمت جنوں کی سر لیتا
کہ جب خمار انا ذوق اشتہار میں تھا
کسے سنائیں کراہیں سسکتے سایوں کی
سماعتوں کا خدا شور کے حصار میں تھا
عجیب دھند ہے پھیلی ہوئی جدھر دیکھو
ٹھٹھک کے اپنی جگہ ہر کوئی دیار میں تھا
غزل کے شعر کی مانند تھا سخن اس کا
کمال رمز سخن طرز اختصار میں تھا
ہے زخم زخم لہو آشنا بدن سارا
یہ چکرویوہ تو یاروں کے اعتبار میں تھا
میں اس کے ساتھ ہی ہو جاتا کیسے ممکن تھا
وہ لوٹ آتا کہاں اس کے اختیار میں تھا
شریک واقعہ کرتا ہے اپنے قاری کو
عجب کمال ہنر واقعہ نگار میں تھا
قیامتیں کئی مجھ پر گزر گئیں سرشارؔ
میں خوش گمان کرم ہی کے انتظار میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.