وہ زخم پر زخم دے رہے ہیں میں زخم پر زخم کھا رہا ہوں
وہ زخم پر زخم دے رہے ہیں میں زخم پر زخم کھا رہا ہوں
ظہیر ناشاد دربھنگوی
MORE BYظہیر ناشاد دربھنگوی
وہ زخم پر زخم دے رہے ہیں میں زخم پر زخم کھا رہا ہوں
کوئی مجھے آزما رہا ہے کسی کو میں آزما رہا ہوں
خیال کا میکدہ کھلا ہے سبو امیدوں کا پا رہا ہوں
ترے تصور کا ہے کرشمہ کہ بے پیے لڑ کھڑا رہا ہوں
ہوا مخالف زمانہ دشمن جو راہبر تھے وہی ہیں رہزن
مگر عزائم کی روشنی میں قدم بڑھاتا ہی جا رہا ہوں
نہ جانے اس دل کے بت کدے میں صنم ہیں کتنے طرح طرح کے
مگر یہ حیرت ہے کہ ہر اک سے وفا کی میں داد پا رہا ہوں
مرے ہی دم سے ہے کج کلاہی یہ خود نمائی یہ خود ستائی
مذاق اڑائیں نہ آپ میرا غرور میں آپ کا رہا ہوں
تھکی ہوئی ہے امید میری تھکا ہوا حوصلہ ہے میرا
کرو نہ منزل کا ذکر مجھ سے میں خود کو ناکام پا رہا ہوں
گراں تھا جن کا خیال بھی کل مری طبیعت کی سادگی پر
میں آج ناشادؔ ان کی چوکھٹ پہ اپنے سر کو جھکا رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.