وہ زیست جو لذت کش آلام رہی ہے
وہ زیست جو لذت کش آلام رہی ہے
وہ زیست ترے نام سے منسوب ہوئی ہے
کیوں ہجر کی شب مہکی ترے قرب کی خوشبو
کیا کوئی کلی یاد کے گلشن میں کھلی ہے
اے گزرے ہوئے لمحو کوئی نقش ابھارو
آئینۂ تخییل پہ اب گرد جمی ہے
اک ہم ہیں کہ خاک رہ جاناں میں ابھی تک
اک وہ ہیں کہ ان کی وہی بیگانہ روی ہے
اے گردش ایام کوئی زخم نیا اور
اک موڑ پہ اب عمر رواں ٹھہر گئی ہے
روداد غم دل میں سناؤں تجھے کیوں کر
میں دیکھ رہا ہوں تری آنکھوں میں نمی ہے
اب گزرے ہوئے وقت کا کچھ ذکر نہ چھیڑو
مشکل سے طبیعت مری قابو میں ہوئی ہے
مدت سے کسی درد کا تحفہ نہیں آیا
یا گردش ایام ہمیں بھول گئی ہے
اے باد سحر آج تو چپ چاپ گزر جا
ہونے دے ذرا دیر ابھی آنکھ لگی ہے
مے لاؤ غزل گاؤ قریب آؤ شب ماہ
شرمندہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہی ہے
مت پوچھ کہ کیا ہم پہ گزرتی ہے ترے بعد
بیٹھے ہیں جہاں صبح وہیں شام ہوئی ہے
ہے اول شب بزم میں رنگ آخر شب کا
کیا شمع کوئی وقت سے پہلے ہی بجھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.