یاد آتا ہے کہ خود کو نوجواں سمجھا تھا میں
یاد آتا ہے کہ خود کو نوجواں سمجھا تھا میں
اس طلسم رنگ و بو کو گلستاں سمجھا تھا میں
ہاں اسے فخر حسینان جہاں سمجھا تھا میں
اس کا ملنا حاصل کون و مکاں سمجھا تھا میں
اس صنم کو خود پہ جب تک مہرباں سمجھا تھا میں
اس کے اطوار ستم کو شوخیاں سمجھا تھا میں
ان کی نظروں میں نہاں جو بجلیاں سمجھا تھا میں
ہر ادا کو التفات بے کراں سمجھا تھا میں
میرے چہرے سے نمایاں تھا فشار ضبط غم
آہ کو بھی شکوۂ جور بتاں سمجھا تھا میں
رفتہ رفتہ اس نے بڑھ کر میرے دل کو خوں کیا
جس خلش میں لذت پیہم نہاں سمجھا تھا میں
حسن فانی گر نہیں عشق مجازی بھی نہیں
چند روزہ شے تھی جس کو جاوداں سمجھا تھا
دائمی فرقت نے آغاؔ میری آنکھیں کھول دیں
اک جہنم ہے جسے باغ جناں سمجھا تھا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.