یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
چمپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا
بات ہی اول تو وہ کرتا نہیں مجھ سے کبھی
اور جو بولے ہے کچھ منہ سے تو شرمایا ہوا
جا کے پھر آؤں نہ جاؤں اس گلی میں دوڑ دوڑ
پر کروں کیا میں نہیں پھرتا ہے دل آیا ہوا
بے سبب جو مجھ سے ہے وہ شعلہ خو سرگرم جنگ
میں تو حیراں ہوں کہ یہ کس کا ہے بھڑکایا ہوا
وہ کرے عزم سفر تو کیجیے دنیا سے کوچ
یہ ارادہ ہم نے بھی دل میں ہے ٹھہرایا ہوا
نوک مژگاں پر دل پژمردہ ہے یوں سرنگوں
شاخ سے جھک آئے ہے جوں پھول مرجھایا ہوا
جاؤں جاؤں کیا لگایا ہے میاں بیٹھے رہو
ہوں میں اپنی زیست سے آگے ہی اکتایا ہوا
تیری دوری سے یہ حالت ہو گئی اپنی کہ آہ
عنقریب مرگ ہر اک اپنا ہمسایہ ہوا
کیا کہیں اب عشق کیا کیا ہم سے کرتا ہے سلوک
دل پہ بے تابی کا اک پیادہ ہے بٹھلایا ہوا
ہے قلق سے دل کی یہ حالت مری اب تو کہ میں
چار سو پھرتا ہوں اپنے گھر میں گھبرایا ہوا
چپکے چپکے اپنے اپنے دل میں سب کہتے ہیں لوگ
کیا بلا وحشت ہوئی ہے اس کو یا سایا ہوا
حکم بار مجلس اب جرأتؔ کو بھی ہو جائے جی
یہ بچارہ کب سے دروازے پہ ہے آیا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.