یاد گزرے ہوئے لمحوں کی سزا ہو جیسے
یاد گزرے ہوئے لمحوں کی سزا ہو جیسے
پر سکوں جھیل میں کنکر سا گرا ہو جیسے
دل نے بھولے سے ترا نام لیا ہے جب بھی
بند کمرے میں کوئی ساز بجا ہو جیسے
لمس پا کے وہ بکھرنا تری رعنائی کا
شاخ نے ساتھ ہواؤں کا دیا ہو جیسے
مسکراہٹ ہے کہ قاصد کوئی پیغام لیے
اوٹ میں بند دریچے کی کھڑا ہو جیسے
تنگ بستر میں تعیش کا سنہری سپنا
زرد پتوں میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
صبح دم وہ تری انگڑائی کا عالم توبہ
رات کا مست بدن ٹوٹ رہا ہو جیسے
دیکھ محفل میں دھواں پھیل گیا ہے انجمؔ
میں نے بھولے سے ترا نام لیا ہو جیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.