یاد حق کی ہے زمانے سے فراموشی ہے
یاد حق کی ہے زمانے سے فراموشی ہے
ہوش کا ہوش ہے بے ہوشی کی بے ہوشی ہے
ہوش میں ہوں نہ مجھے دورۂ بے ہوشی ہے
ایک حالت ہے کہ حالت سے فراموشی ہے
کون کہتا ہے مرا عالم بے ہوشی ہے
ہوش کامل ہے مجھے اس لئے خاموشی ہے
شاد ہوں آج مری رسم کفن پوشی ہے
آج دنیا کے جھمیلوں سے سبکدوشی ہے
واقف راز حقیقت مری بے ہوشی ہے
عالم ہوش مرا عالم بے ہوشی ہے
درد دل تو نے مصیبت میں سدا ساتھ دیا
بھول جانا تجھے احسان فراموشی ہے
جو ہیں آزاد وہ گلشن میں بہاریں لوٹیں
میری قسمت میں قفس سے ہی ہم آغوشی ہے
لب پہ کیوں آئے کبھی تیری جفاؤں کا گلہ
حاصل عشق مرا طرز وفا کوشی ہے
دیکھ ہی لیں گے تجھے دیکھنے والے تیرے
کس لئے پردہ ہے کس بات پہ روپوشی ہے
جب مجھے ہوش نہ تھا ہوش کی تاکیدیں تھیں
ہوش میں ہوں تو مجھے دعوت بے ہوشی ہے
ہوش والا یہ سمجھ جائے تو ہوش آ جائے
مرکز دائرۂ ہوش ہی بے ہوشی ہے
ہوش والے یہ حقیقت تجھے معلوم نہیں
ہوش کی حد سے ادھر عالم بے ہوشی ہے
دل میرا راہ طریقت میں وہیں بیٹھ گیا
جب یہ سمجھا کہ تمنا بھی غلط کوشی ہے
مٹ گئیں دل سے تمنائیں یہ اچھا ہی ہوا
اب مجھے یاس و مصیبت سے سبکدوشی ہے
کعبہ و دیر کے جھگڑے تو عبث ہیں صوفیؔ
خانۂ دل کے سوا ہر جگہ رو پوشی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.