یاد کر کر کے تری یاد مٹانے نکلے
یاد کر کر کے تری یاد مٹانے نکلے
لے کے گھی ہاتھ میں ہم آگ بجھانے نکلے
ہم فقیروں کے قلم سے جو خزانے نکلے
جھولیاں لے کے شہنشاہ چرانے نکلے
جیسے جنگل میں کوئی رات بتانے نکلے
گھر سے نکلے تو لگا جان گنوانے نکلے
اپنی حالت کا اب احساس ہوا ہے ایسے
جیسے چھپر کوئی برسات میں چھانے نکلے
بھوکی دھرتی کی انا آ گئی دامن میں مگر
سارے آکاش میں دو چار ہی دانے نکلے
کچھ تھکے ماندوں پہ کتوں کا برسنا دیکھا
جب وہ فٹ پاتھ پہ اخبار بچھانے نکلے
خود کو سمجھاتے ہوئے شہر سے یوں لوٹے ہیں
جیسے پردیس کوئی گھر سے کمانے نکلے
ایسے انساں سے ملاقات نہ کرنا بہتر
دل کے آنگن میں جو دیوار اٹھانے نکلے
سادے لوگوں کو بہت تنگ کیا ہے تو نے
ہم ہی دیوانوں سے بل تیرے زمانے نکلے
شعر کہتے ہیں جسے بات وہیں ختم ہوئی
ہم تو بس میرؔ کی اک رسم نبھانے نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.