یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاں
یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاں
کاٹتے ہیں رو ہی رو ساون کی راتیں کالیاں
شب تصور باندھ کر اس جنبش مژگاں کا واہ
خود بخود کس کس مزے سے ہم نے چھڑیاں کھا لیاں
دیکھیں کیا ان کی لچک اس ساعد نازک بغیر
کھینچتی ہیں کیوں ہمیں کانٹوں میں گل کی ڈالیاں
کچھ نہ کچھ کر بیٹھتا ہوں بات اس کے بر خلاف
تا کسی صورت وہ دے جھنجھلا کے مجھ کو گالیاں
مہ اسیر ہالہ اس کا دیکھ بالا کیوں نہ ہو
خندہ زن ہوں مہر پر جس کی جڑاؤ بالیاں
شب کو جو اس کا تصور بندھ گیا تو ہم نے بس
اس کے مکھڑے کی بلائیں صبح تک کیا کیا لیاں
وقت اظہار وفا محفل میں اس کی جس سے آنکھ
مل گئی تو بس وہ سب باتیں اسی پر ڈھالیاں
برگ گل ان کو کہوں یا پارۂ یاقوت واہ
دیکھیو بن پان کھائے ان لبوں کی لالیاں
کوچۂ قاتل کو گر مسلخ کہوں تو ہے بجا
جب نہ تب دیکھو تو بہتی ہیں لہو کی نالیاں
خون دل آنکھوں میں بھر آتا ہے جب آتی ہے یاد
وہ مئے گل رنگ کی بھر بھر کے دینی پیالیاں
تاک جھانک اس کی کہوں کیا میں کہ طفلی میں بھی تھیں
اس کے ہاتھوں گھر کی دیواروں میں ہر سو جالیاں
کاش جرأتؔ وصل کا دن ہووے جلدی سے نصیب
ہجر کی تو کھائے جاتی ہیں یہ راتیں کالیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.