یادوں کا عجیب سلسلہ ہے
یادوں کا عجیب سلسلہ ہے
سویا ہوا درد جاگ اٹھا ہے
مٹ بھی چکے نقش پا مگر دل
مہکی ہوئی چاپ سن رہا ہے
دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن
اندر سے مکان گر رہا ہے
پوچھے ہے چٹک کے غنچۂ زخم
اے اجنبی تیرا نام کیا ہے
کس شعلہ بدن کی یاد آئی
دامان خیال جل اٹھا ہے
سوچا ہے یہ میں نے پی کے اکثر
نشے میں یہ روشنی سی کیا ہے
قاتل کو دعائیں دو کہ فارغؔ
ہر زخم وفا غزل سرا ہے
- کتاب : غزل اس نے چھیڑی-6 (Pg. 176)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ بکس ،بی۔37،سیکٹر۔1،نوئیڈا،اترپردیش۔201301 (2019)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.