یادوں کی گونج ذہن سے باہر نکالئے
گنبد نہ چیخ اٹھے کوئی در نکالئے
کھل جائیے برستے ہوئے ابر کی طرح
جو چیز دل میں ہے اسے باہر نکالئے
بن کر دکھائیے کسی بہزاد کا جواب
پتھر تراش کر کوئی پیکر نکالئے
رکھئے شناوری کا بھرم کچھ نہ کچھ ضرور
موتی نہ ہاتھ آئے تو پتھر نکالئے
منظور ہے غرور خزاں کی اگر شکست
گلشن سے رنگ و نور کے لشکر نکالئے
قادر ہے بحر و بر پہ جو انساں تو آپ بھی
خط کھینچ کر زمیں سے سمندر نکالئے
رکھئے بعزم خاص رہ زیست میں قدم
منزل بڑی کٹھن ہے مگر ڈر نکالئے
دشمن بھی تیر جوڑ کے بیٹھا ہے گھات میں
خندق سے دیکھ بھال کے اب سر نکالئے
پھر دوست کو لگائیے دل سے بصد خلوص
پھر اپنی آستین سے خنجر نکالئے
پھر چھا رہی ہے دجلۂ مہتاب پر گھٹا
اس تیرگی سے پھر کوئی منظر نکالئے
جو ہو سکے تو وقت کی زنجیر توڑ کر
شام و سحر کا پاؤں سے چکر نکالئے
زلفیؔ گلی میں آج بہت تیز ہے ہوا
اس کاغذی بدن کو نہ باہر نکالئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.