یار اک لذت دیدار سے آگے نہ گئے
یار اک لذت دیدار سے آگے نہ گئے
یعنی زلف و لب و رخسار سے آگے نہ گئے
جوش میں صورت نادار جو آتے ہیں نظر
ہوش میں شکوۂ زر دار سے آگے نہ گئے
تھا وہیں کوۓ مغاں چار قدم پر افسوس
کیا کیا ہم نے کہ بازار سے آگے نہ گئے
غم جو آزار تھا اک دولت بیدار ہے اب
ہم تو اس دولت بیدار سے آگے نہ گئے
شب نے جلوہ کیا دو چار طرب خانوں میں
صبح کے جلوے بھی دیوار سے آگے نہ گئے
زلف کی چھاؤں میں سوئے نہ خطر میں جاگے
ہائے وہ لوگ جو بیگار سے آگے نہ گئے
آسماں توڑ کے آدم تو زمیں تک آیا
مہر و مہ گردش پرکار سے آگے نہ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.