یہاں بھی تو ہے وہاں بھی تو ہے کہاں نہیں ہے کدھر نہیں ہے
یہاں بھی تو ہے وہاں بھی تو ہے کہاں نہیں ہے کدھر نہیں ہے
نہ پھر بھی دیکھے جو تیرا جلوہ وہ شخص اہل نظر نہیں ہے
وہ قعر دریا ہو یا کنارا ہر ایک جا میں نے چھان مارا
مژہ پہ لرزاں سرشک جیسا کہیں بھی کوئی گہر نہیں ہے
بدن اگرچہ جواں جواں ہے رگوں کے اندر لہو رواں ہے
فضول سب ہے جو بحر دل میں ظہور مد و جزر نہیں ہے
حضور چلئے سنبھل سنبھل کے قدم ذرا اور ہلکے ہلکے
خیال رکھیے یہ میرا دل ہے یہ آپ کی رہ گزر نہیں ہے
گئی بہاروں کے راگ چھیڑو خزاں رتوں کی پرت ادھیڑو
تمہاری بزم طرب میں ساقی ابھی مری چشم تر نہیں ہے
میں اپنا ہر کام اپنی حد میں بڑے تیقن سے کر رہا ہوں
مری لغت کے کسی ورق پر اگر نہیں ہے مگر نہیں
ابھی تلک اس کے روئے زیبا پہ میری نظریں ٹکی ہوئی ہیں
اسے بھی ہے یہ گمان غالب کہ آئنے کو خبر نہیں ہے
جو بد چلن تھا زمانے بھر کا وہی فضیلت مآب ٹھہرا
اسی کو دستار دی گئی ہے کہ جس کے شانے پہ سر نہیں ہے
کبھی جو گھر سے سفر پہ نکلو یہ بات قرطاس دل پہ لکھ لو
کہ ہر شریک سفر ہمارا حقیقتاً ہم سفر نہیں ہے
اسی میں اخلاقؔ عمر بھر کی مسافتوں کا ہے راز پنہاں
یہ ایک لمحہ جو وصل کا ہے یہ ساعت مختصر نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.