یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے
یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے
اکیلے دونوں جہاں کو سنبھال رکھا ہے
سیاہ گیسو کو شانوں پہ ڈال رکھا ہے
بلا کا سانپ سپیرے نے پال رکھا ہے
مجھے تو حشر کے وعدے پہ ٹال رکھا ہے
اجل کا نام بدل کر وصال رکھا ہے
یہ دن کے دوش پہ بکھری ہیں شام کی زلفیں
کہ اک مچھیرے کے کاندھے پہ جال رکھا ہے
جس آفتاب کو سمجھے تھے سب کہ ڈوب گیا
اسے گلاس میں رندوں نے ڈھال رکھا ہے
یہ کون ایسی پری ہے کہ جس کو رندوں نے
زمیں سے تا بہ ثریا اچھال رکھا ہے
ہماری توبہ کا خوں ہے کہ بادۂ رنگیں
یہ جام جام میں کیا لال لال رکھا ہے
زمانہ دیتا ہے مجھ کو زوال کی دھمکی
نہ جانے کون سا مجھ میں کمال رکھا ہے
نذیرؔ مر کے چکانا پڑے گا قرض حیات
نہیں گر آج تو کل انتقال رکھا ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Nazeer Banarasi (Pg. 275)
- Author : Nazeer Banarsi
- مطبع : Educational Publishing House (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.