یہی ہیں برق کی جولانیاں تو آشیاں کب تک
یہی ہیں برق کی جولانیاں تو آشیاں کب تک
اٹھے گا خاک پروانہ سے محفل میں دھواں کب تک
غم صیاد خوف برق فکر آشیاں کب تک
اٹھائے گی یہ صدمے ایک جان ناتواں کب تک
یہی ہے درد روز افزوں یہی بیتابیٔ پیہم
تو یہ راز محبت راز کب تک رازداں کب تک
تری نظروں کو بھی جھکنا پڑے گا خود بخود اک دن
مرے دکھتے ہوئے دل کی دعائیں رائیگاں کب تک
ضیائے حسن ہر ذرہ کو اک دن جگمگا دے گی
ترے جلوؤں کو روکیں گے حدود لا مکاں کب تک
خبر بھی ہے تجھے بیتابیٔ دل بڑھتی جاتی ہے
خدا جانے رہے گی میرے قابو میں زباں کب تک
ذرا اپنے تغافل کی نہایت بھی بتا دیجے
رہے گا مورد الزام مجبور فغاں کب تک
یہ محرومی نہ جانے کس کے قدموں پر گرا دے گی
نگاہ شوق ڈھونڈے گی کسی کا آستاں کب تک
وہ جلوے پھر وہ جلوے ہیں وہ نظریں پھر وہ نظریں ہیں
دل ناداں یقین ہستیٔ تاب و تواں کب تک
بساط دل ہے کیا نقشہ بدل جائے گا دنیا کا
یہ آنکھیں ہیں یہ نظریں ہیں تو تنظیم جہاں کب تک
محبت خود بخود اک دن ہر اک پردہ اٹھا دے گی
منیرؔ اس دل سے وہ بد ظن دل ان سے بد گماں کب تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.