یہی حقیر سی دنیا جو خاکدان لگے
یہی حقیر سی دنیا جو خاکدان لگے
بلندیوں سے جو دیکھو تو آسمان لگے
وہ زندگی کی کڑی دھوپ سہ نہیں سکتا
ہے ایک ابر کا ٹکڑا بھی سائبان لگے
اسے بھی جینے کا حق ہے اسے بھی جینے دو
جو بے زبان نہیں اور بے زبان لگے
بتاؤ نذر کروں میں کسے متاع حیات
میں جس کو پیار کروں وہ بھی بد گمان لگے
اسی کو سونپ دے سرمایۂ ہنر اپنا
متاع لوح و قلم کا جو پاسبان لگے
رواں دواں تھا جہاں آبشار نغمہ و نور
وہ شہر عیش و طرب کتنا بے امان لگے
یہ اپنے ذوق تجسس کی بات ہے ورنہ
وہ بے سراغ لگے ہے نہ بے نشان لگے
وہ بات نوک قلم تک ضرور آئے گی
جو حرف حرف حقیقت کی ترجمان لگے
خموشیوں میں بھی سرگوشیوں کے ہیں انبار
تری نگاہ مرے غم کی داستان لگے
ہزار سال مسرت کی زندگی بھی اثرؔ
نہ ایک لمحہ نہ اک پل نہ ایک آن لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.