یہی کارن جدائی کا بنا تھا
مجھے وہ وقت سے پہلے ملا تھا
اسی نے زخم بھی اتنے دئے تھے
جسے میں جس قدر اچھا لگا تھا
مری ماں دکھ میں مجھ کو دیکھتی تھی
میں چھوٹا تھا مگر سب سے بڑا تھا
اداسی میرے پیچھے پڑ گئی تھی
مرا دل تھا یا کوئی غم سرا تھا
سوال عشق پر بولے کہ ہاں ہے
جو پوچھا مجھ سے بس اتنا کہا تھا
بھنور سے آخری سسکی یہ ابھری
ہمارا ناخدا تھا با خدا تھا
جسے سب عقل کل سمجھے ہوئے تھے
اسی کی عقل پر پردہ پڑا تھا
جہاں پر تھک کے میں بیٹھا ہوا تھا
وہاں سے راستا چلنے لگا تھا
نہیں تھا وقت لیکن تیری خاطر
مجھے ہر شخص سے ملنا پڑا تھا
وہ آنکھیں مجھ کو گھورے جا رہی تھیں
میں ان کو دیکھ کے سہما ہوا تھا
محبت کا نہیں ہے علم لیکن
میں ان ہاتھوں کو اکثر چومتا تھا
وہ ملتا خود کشی کرنے سے پہلے
میں اس کو بخش دینا چاہتا تھا
کہیں پر شادیانے بج رہے تھے
کسی کا دکھ زیادہ ہو گیا تھا
وہ پیشانی مجھے اچھی لگی تھی
میں ان ہونٹوں کا گرویدہ ہوا تھا
جواں بیٹے کے آنسو پونچھتا تھا
وہ بوڑھا باپ جو سٹھیا گیا تھا
زمیں پاؤں پڑی تھی ورنہ حیدرؔ
مرے سر سے فلک تک راستا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.