یہی معیار اب دنیا میں صبح و شام ٹھہرا ہے
یہی معیار اب دنیا میں صبح و شام ٹھہرا ہے
ہوا کے ساتھ چلنا زندگی کا کام ٹھہرا ہے
کہاں تک ساتھ دے گا حق پرستی کا کوئی آخر
صداقت پر ہمیشہ جھوٹ کا الزام ٹھہرا ہے
بتائے گا وہی لذت سرور و تشنہ کامی کی
لب دریا پہنچ کر جو بھی تشنہ کام ٹھہرا ہے
ستارے جھانکنے لگتے ہیں پلکوں کے دریچے سے
یہی ہر منتہائے رنج کا انجام ٹھہرا ہے
گئے وہ دن کہ قاتل قابل تعزیر ہوتا تھا
ہمارے عہد میں اب قتل پر انعام ٹھہرا ہے
ہواؤں نے بجھانے کی تو کوشش کی بہت لیکن
فصیل شہر پر روشن چراغ شام ٹھہرا ہے
وضاحت چاہئے کچھ اور آئین سیاست میں
ابھی اے محتسب انصاف میں ابہام ٹھہرا ہے
میں اپنی بے گناہی تو ابھی ثابت نہ کر پایا
ستم اس پر تمہارا جرم میرے نام ٹھہرا ہے
انا کے زعم سے جب بھی نکل کر بات کی ہم نے
ہمارا مدعا صدیقؔ پھر الہام ٹھہرا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.