یہی تو مسئلہ ٹھہرا کہ آب و گل نہیں ملتے
یہی تو مسئلہ ٹھہرا کہ آب و گل نہیں ملتے
یہاں بس ہاتھ ملتے ہیں کہ دل سے دل نہیں ملتے
تکلف بر طرف رکھ کر جو تنہائی میں ملتے ہیں
خدا جانے وہ کیوں آخر سر محفل نہیں ملتے
سلامت ہیں خدا کے فضل سے ہم ایسی دنیا میں
جہاں لاشیں تو ملتی ہیں مگر قاتل نہیں ملتے
جہاں کے ذرے ذرے سے صدائے عدل آتی تھی
اسی انصاف کے مندر میں اب عادل نہیں ملتے
ہم ایسی کشتیٔ بے بادبانی کے مسافر ہیں
جسے طوفاں تو ملتے ہیں مگر ساحل نہیں ملتے
چڑھا رکھا ہے غازہ جب سے اپنے اپنے چہروں پر
نظر آتے ہیں اہل حق سبھی باطل نہیں ملتے
اے تشنہؔ نا امیدی کفر ہے سو جستجو کر لیں
اگرچہ احمقوں کے شہر میں عاقل نہیں ملتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.