یقین جس کا ہے وہ بات بھی گماں ہی لگے
یقین جس کا ہے وہ بات بھی گماں ہی لگے
وہ مہربان ہے لیکن بلائے جاں ہی لگے
ہم اتنی مرتبہ گزرے ہیں آزمائش سے
وہ سیدھی بات بھی پوچھے تو امتحاں ہی لگے
ترس گئے ہیں کہ کھل کر کسی سے بات کریں
ہر آشنا ہمیں غیروں کا راز داں ہی لگے
ہو جیسے کیفیت دل کا آئنہ منظر
وہ ہم سفر ہو تو صحرا بھی گلستاں ہی لگے
میں جیسے مرکزی کردار ہوں کہانی کا
کوئی فسانہ ہو وہ میری داستاں ہی لگے
ترے خیال سے نسبت کا اب یہ عالم ہے
کہیں جھکاؤں جبیں تیرا آستاں ہی لگے
مرے وطن کے سبھی لوگ چاند تارے ہیں
زمین اس کی مجھے جیسے آسماں ہی لگے
سعیدؔ باد سماعت نوائے مطرب ہے
خوشی کا گیت بھی اب نغمۂ فغاں ہی لگے
- کتاب : Shakh-e-Gul (Pg. 34)
- Author : Qazi Gaus Muhiuddin Ahmed Siddique
- مطبع : Matla-e-adab Publisher (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.