یقین کو سینچنا ہے خوابوں کو پالنا ہے
یقین کو سینچنا ہے خوابوں کو پالنا ہے
بچا ہے تھوڑا سا جو اثاثہ سنبھالنا ہے
سوال یہ ہے چھڑا لیں مسئلوں سے دامن
کہ ان میں رہ کر ہی کوئی رستہ نکالنا ہے
جہان سوداگری میں دل کا وکیل بن کر
اس عہد کی منصفی کو حیرت میں ڈالنا ہے
جو مجھ میں بیٹھا اڑاتا رہتا ہے نیند میری
مجھے اب اس آدمی کو باہر نکالنا ہے
زمین زخموں پہ تیرے مرہم بھی ہم رکھیں گے
ابھی گڑی سوئیوں کو تن سے نکالنا ہے
کسی کو میدان میں اترنا ہے جیتنا ہے
کسی کو تا عمر صرف سکہ اچھالنا ہے
یہ ناؤ کاغذ کی جس نے ندی تو پار کر لی
کچھ اور سیکھے اب اس کو دریا میں ڈالنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.