یقین سے بھی گئے احتمال سے بھی گئے
یقین سے بھی گئے احتمال سے بھی گئے
ہم اپنے عہد میں خواب و خیال سے بھی گئے
دعا کے ہاتھ کٹے خواہشوں کے دل ٹوٹے
جواب سے بھی گئے ہم سوال سے بھی گئے
تمام لوگ خدا ترس ہوتے جاتے ہیں
امیر شہر عروج و زوال سے بھی گئے
کسے یقین دلائیں کہ ہم بھی زندہ ہیں
انا کے زخمی خدا اندمال سے بھی گئے
بہت ہی مہنگا پڑا ان کو شوق ہم سفری
پلٹ کے آئے تو خود اپنی چال سے بھی گئے
جنوں ہے زینت تہذیب محفل یاراں
امین ہوش و خرد عرض حال سے بھی گئے
ہمارا ذکر ہے دیمک زدہ کتابوں میں
ہم اہل علم و ہنر تھے مثال سے بھی گئے
بدن کو توڑ رہی ہے نئی رتوں کی تھکن
یہ کرب ہجر کے لمحے وصال سے بھی گئے
پلٹ کے جانے کی ہمت مہاجروں میں نہ تھی
وطن سے بھی گئے اہل و عیال سے بھی گئے
ہمارے دوست صف دشمناں میں شامل ہیں
ہم ایسے سادہ مزاج اپنی ڈھال سے بھی گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.