یہ بات جان نہیں پایا آئینہ گر کیا
یہ بات جان نہیں پایا آئینہ گر کیا
نہ ہو کوئی پس منظر تو پھر ہے منظر کیا
ابھی تلک مری خانہ خرابیاں نہ گئیں
چھپا ہے آج بھی شیطان میرے اندر کیا
ہے سب ہماری عقیدت کی کار فرمائی
وگرنہ دیوتا ہوتا ہے کوئی پتھر کیا
کسی کی یاد میں جیتے ہیں اور مرتے ہیں
ہے مشغلہ کوئی دنیا میں اس سے بہتر کیا
ہماری پیاس تو شبنم سے بجھ بھی سکتی تھی
ہمارے واسطے لائے ہو تم سمندر کیا
چمک اٹھے مری پلکوں پہ اشک کے جگنو
ہوئے ہیں داغ مرے دل کے پھر منور کیا
یہ کیا ہوا ہے کہ بے ربط ہو گئے نقطے
بدل گیا ہے مرے دائرے کا محور کیا
چمکتی دھوپ ہے رستہ ہے یاد منزل ہے
بتاؤ موسم دیوانگی میں اب گھر کیا
ذکیؔ ہمیشہ نقوش غزل نکھارتے ہو
تمہیں ہیں اس کی روایات ساری ازبر کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.