یہ دریا ہے کوئی کہ پانی پانی گفتگو ہے
یہ دریا ہے کوئی کہ پانی پانی گفتگو ہے
ہوا کی ساحلوں سے بادبانی گفتگو ہے
سمندر تیری لہریں ہیں کہ زیریں اور زبریں
سمندر تیری ساری بے کرانی گفتگو ہے
اکٹھے کر رہی ہے مامتا کومل سے تنکے
شجر سے شاخچوں کی آشیانی گفتگو ہے
یہ ڈھلتی چھاؤں ہے قسمت سے ہاتھ آتے ہیں اشعار
کہ دولت کی طرح یہ آنی جانی گفتگو ہے
الگ ہیں باغ میں رنگوں کی مستعمل زبانیں
پرندے کے گلے کی سرخ گانی گفتگو ہے
بنایا ہے انہی لفظوں کو جیسے چھاج چھلنی
کہ صحراؤں کے دن کاٹے ہیں چھانی گفتگو ہے
گلی کوچوں میں خاموشی کا برپا ہے کوئی شور
کہ شہروں سے یہی نقل مکانی گفتگو ہے
چھلک اٹھتی ہے راجوں اور مہراجوں کے آگے
کسی کی رنگ زا نیندوں کی رانی گفتگو ہے
جو میں اپنی طرف سے تازہ تازہ کہہ رہا ہوں
کسی میرے ہی جیسے کی پرانی گفتگو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.