یہ دل بھی زخم ہے وہ گل بھی گھاؤ رکھتا ہے
یہ دل بھی زخم ہے وہ گل بھی گھاؤ رکھتا ہے
تمام شہر طلب کا تناؤ رکھتا ہے
شکستہ شاخ ہو تم بارشوں کو دو نہ صدا
نشیب اب کے غضب کا بہاؤ رکھتا ہے
قریب ہے تو قریب آئے دور ہے تو رہے
یہ کیا کہ پاس بھی ہے اور کھچاؤ رکھتا ہے
وہ معتبر بھی ہمیں کر گیا سپرد ہوا
یہ مہربان بھی موجوں کی ناؤ رکھتا ہے
دکھا کے خواب مجھے نیند سے جگاتا ہے
مجھے بگاڑ کے اپنا بناؤ رکھتا ہے
عطاؔ سے بات کرو چاندنی سی شبنم سی
خنک نظر ہے مگر دل الاؤ رکھتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.