یہ دل نہیں نور کا ہے شعلہ کسی کو اس سے ضرر نہیں ہے
مثال برق و شرر ہے لیکن مزاج برق و شرر نہیں ہے
ہے روکش آفتاب ذرہ بغیر پردہ بلا وسیلہ
وہاں لگائی ہے آنکھ دل نے جہاں مجال نظر نہیں ہے
حرم سے نکلے تلاش بت میں بتوں سے یاد خدا پہ بگڑی
غرض ہم آوارۂ وفا ہیں کہیں ہمارا گزر نہیں ہے
جو دیکھنے والے دیکھتے ہیں وہ سننے والوں سے کیا بتائیں
نظر کو ذوق زباں نہیں ہے زباں کو ذوق نظر نہیں ہے
اذاں ہو ناقوس یا جرس ہو موئثر اپنی جگہ پہ سب ہیں
مگر جہاں میں پہنچ گیا ہوں وہاں کسی کا اثر نہیں ہے
وہ نیچی نظریں تھیں دل کی طالب وفا نے گو جان نذر کر دی
مگر اثر جو سوال میں تھا جواب میں وہ اثر نہیں ہے
سخن مرا کیف دل ہے ناطقؔ وہ قدر کرتے ہیں جو ہو عاشق
نہیں ہے یہ فلسفہ کتابی یہ اکتسابی ہنر نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.