یہ دل اسی کی اک آہٹ کے انتظار میں ہے
یہ دل اسی کی اک آہٹ کے انتظار میں ہے
جو سامنے ہے مگر پردۂ غبار میں ہے
مزہ تڑپ کا خلش آرزو کی یاس کا غم
خزاں میں لطف جو ہے خاک وہ بہار میں ہے
کبھی نہ جس سے ہوئی ایک بھی خطا سرزد
جھکائے سر وہ سزا کے لئے قطار میں ہے
اندھیری رات میں اختر شماریاں تو کرو
سمجھ بھی جاؤ گے کیا لطف انتظار میں ہے
نہیں یہ زیب بشر لا مکاں کی بات کرے
ہے دسترس سے پرے کب وہ اختیار میں ہے
یہ کانٹے بڑھ کے جو دامن کو تھام لیتے ہیں
گلوں میں ہوگی کشش پیار صرف خار میں ہے
تخیلات میں شاید ہے وصل کا منظر
قرار ہلکا سا مدت کے بے قرار میں ہے
مزہ تو جب ہو چمن ہو سدا بہار مثال
جو موسمی ہو تبسم وہ کس شمار میں ہے
جدھر بھی دیکھیے ہے رنگ و بو فضا پہ محیط
تری ہنسی کا اثر اب بھی لالہ زار میں ہے
کھلی فضاؤں میں رہ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
وہی تو بات ہے جو صحن پردہ دار میں ہے
نفس نفس میں گھٹن اور ہر طرف ہے دھواں
فضا وہ پہلی سی اب کون سے دیار میں ہے
خرید پائے جو اس کو زمانہ ہے اس کا
سنو یہی تو صدا وقت کی پکار میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.