Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ دنیا دور تک کا سلسلہ نئیں

یاسمین حمید

یہ دنیا دور تک کا سلسلہ نئیں

یاسمین حمید

MORE BYیاسمین حمید

    یہ دنیا دور تک کا سلسلہ نئیں

    ہمیں اس کے لئے کچھ سوچنا نئیں

    یہ پتلا اس قدر مغرور کیوں ہے

    تو کیا یہ آسمانوں سے گرا نئیں

    بہت پہلے یہ دن آنے سے پہلے

    جو ہونا تھا ابھی تک بھی ہوا نئیں

    سبھی حق فیصلے کے منتظر ہیں

    کسی نے خون کا بدلہ لیا نئیں

    ابھی سورج میں تھوڑی روشنی ہے

    زمیں کا رنگ بھی پھیکا پڑا نئیں

    در و دیوار کے معمار دیکھیں

    یہ گھر بنیاد سے اب بھی ہلا نئیں

    یہ رستہ شہر کے نقشے میں ہوگا

    یہ رستہ صرف آنکھوں میں کھلا نئیں

    یہ دنیا اس لئے آدھی ہے اب تک

    پیالہ درد سے پورا بھرا نئیں

    وہی آنکھیں وہی چہرہ وہی بات

    کسی تصویر میں کچھ بھی نیا نئیں

    ہمیں کچھ کام کرنے ہیں یہاں پر

    یہ مانا کام کا کوئی صلہ نئیں

    اسی کے مشورے کو مانتے ہیں

    یہ دل جیسا بھی ہے اتنا برا نئیں

    بدن کی خاک پر چھینٹے لہو کے

    کہاں سے آئے ہیں ہم نے کہا نئیں

    مسلسل رونے والے ہنس رہے ہیں

    یہ کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نئیں

    کسی کے دکھ کا چرچا ہو رہا ہے

    کوئی دکھ ایسے دکھ سے تو سوا نئیں

    یہ بات اک روز دنیا مان لے گی

    ہمارے جرم کی کوئی سزا نئیں

    کوئی سوتا نہیں ہے کیا سر شام

    کوئی بھی منہ اندھیرے جاگتا نئیں

    نہیں معلوم ان کو یاد ہے کیا

    ہمیں تو ایک دن بھی بھولتا نئیں

    بھلا ہو گر کوئی سمجھائے ان کو

    نمک پاشی میں تاثیر شفا نئیں

    کہاں پر کون تھا جو اب نہیں ہے

    کسی سے پوچھنے کا حوصلہ نئیں

    کسی کا سوچنا رک رک کے چلنا

    مناسب تھا مگر اچھا لگا نئیں

    کوئی تسلیم کرتا ہی نہیں کچھ

    ابھی شاید کوئی اتنا بڑا نئیں

    ہمیں جیسے کوئی ضد ہو گئی تھی

    جو دنیا نے کہا ہم نے کیا نئیں

    خود اپنے واسطے مشکل ہوئے جب

    ہمیں آسان پھر کچھ بھی ملا نئیں

    لباس و وضع شاید ایک سے ہوں

    مگر اندر سے کوئی ایک سا نئیں

    ابھی تو ذہن صیقل ہو رہا ہے

    جو لکھنا ہے ابھی ہم نے لکھا نئیں

    ابھی ٹکڑے اکٹھے ہو رہے ہیں

    ابھی ٹوٹا ہوا رشتہ جڑا نئیں

    یہ منظر اس جگہ پہلے نہیں تھا

    تو کیا ہے پھر اگر یہ معجزہ نئیں

    نئی بستی میں آبادی بہت ہے

    مگر کوئی کسی کو جانتا نئیں

    ہم اک تنہا صدی کے پیش رو ہیں

    ہمارا ایسا ویسا مرتبہ نئیں

    شجر پھوٹے گا پھر اک دن زمیں سے

    ہے دعویٰ زندگی کا موت کا نئیں

    خدا سے رابطہ کر کے تو دیکھو

    پھر اس کے بعد کہہ دینا خدا نئیں

    چہار اطراف ایسی تھی چکا چوند

    کسی کی آنکھ سے پردہ ہٹا نئیں

    یہ لگتا ہے مگر یہ سچ نہیں ہے

    کہ پوری بات کوئی جانتا نئیں

    یہی طوفان بھی برپا کریں گے

    ہمارے دوست پانی اور ہوا نئیں

    اسی مٹی میں مٹی ہو رہیں گے

    اسی مٹی کو کوئی پوچھتا نئیں

    اٹھی شعلوں سے بچے کھیلتے تھے

    لگی پھر آگ تو کچھ بھی بچا نئیں

    عناصر حکم کی تعمیل میں ہیں

    دعا کی دسترس سے ماورا نئیں

    اگر مبہم رہا انسان تو کیا

    یہاں تو آسمانوں کا سرا نئیں

    ہے مشکل خوف کو تسخیر کرنا

    سمندر پار کرنا مرحلہ نئیں

    وہاں کے پھول چننا چاہتے ہیں

    ہمارا جس زمیں سے رابطہ نئیں

    اسی کے دھیان میں الجھے ہوئے ہیں

    ہمیں جو آنکھ اٹھا کے دیکھتا نئیں

    ہمیں اپنی خبر بس اس قدر ہے

    کہ اگلی سانس تک کا بھی پتا نئیں

    نہ جانے کیا ہے پھر جو مانگتا ہے

    یہ دل کچھ بھی تو اس سے مانگتا نئیں

    تمام آسودگی آسودگی بس

    مگر ایسے بھی جینے کا مزا نئیں

    برابر اضطراب اور بے یقینی

    بہت بڑھ جائے تو یہ بھی بھلا نئیں

    تو پھر ہم کس طرح سے خوش رہیں گے

    مگر خوش اس طرح کوئی رہا نئیں

    یہ سب بیکار کی باتیں ہیں شاید

    ہمارا اصل میں یہ مسئلہ نئیں

    یہ وہ کیا توڑتے ہیں جوڑتے ہیں

    نہ جانے کیا ہے جو اب تک بنا نئیں

    غبار وقت ہیں پر مانتے ہیں

    قصور اس میں ذرا بھی وقت کا نئیں

    بتانا سوچ کر تعبیر اس کی

    معبر یہ اشارہ رات کا نئیں

    ہماری سانس اکھڑ جائے تو کیا ہے

    یہی تو زندگی کی انتہا نئیں

    زباں چھالوں سے بھر جائے تو کیا ہے

    کبھی منہ سے ہمیں کچھ بھولنا نئیں

    ادھوری بات رہ جائے تو کیا ہے

    ادھوری بات کو بھی کیا بقا نئیں

    نہ آنی تھی نہ آئی دنیا داری

    مگر شرمندگی اس کی ذرا نئیں

    بہت ہی دور سے آواز آئی

    ہمیں ایسے لگا ہم نے سنا نئیں

    کبھی لگتا ہے ہم ویسے نہیں ہیں

    کبھی لگتا ہے ہم اس سے جدا نئیں

    جو ظاہر تھا اسے تو کیا چھپاتے

    چھپانا چاہتے تھے جو چھپا نئیں

    مسافر تھوڑی مہلت ہے ترے پاس

    سفینہ اتنی جلدی ڈوبتا نئیں

    بہت کچھ ہے جو پانی پہ لکھا ہے

    کسی نے آج تک بھی جو پڑھا نئیں

    کسی کی موت کا مطلب فنا ہے

    کسی کی موت کا مطلب فنا نئیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے