یہ گل بھی زینت آغوش دریائے قضا نکلے
یہ گل بھی زینت آغوش دریائے قضا نکلے
جنہیں ہم با وفا سمجھے تھے وہ بھی بے وفا نکلے
نتیجہ جستجوئے شوق کا کیا جانے کیا نکلے
پس پردہ یہ ممکن ہے وہی رنگیں ادا نکلے
کرشمہ ہے یہ سارا عشق کا ہی ورنہ کب ممکن
لہو کے قطرہ قطرہ سے انا الحق کی صدا نکلے
متاع زندگی آرام جاں صبر و قرار دل
خدا کی شان ہے ہم ان کو کیا سمجھے وہ کیا نکلے
ہوئے مجروح برگ گل انہیں خاروں سے گلشن کے
چمن کے پاسباں ہی بانی جور و جفا نکلے
معاذ اللہ الزام اپنی بربادی کا غیروں پر
ڈبونے والے کشتی کے جب اپنے ناخدا نکلے
کروں کس کا گلہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے
رقیب افسوس اپنے ہی پرانے آشنا نکلے
ہمارے بعد وہ آئے عیادت کو تو کیا آئے
کسی کے اس طرح نکلے اگر ارماں تو کیا نکلے
بہت مشکل ہے عیشؔ اس دور میں نکلے کوئی حسرت
یہ کیا کم ہے کوئی دامن اگر اپنا بچا نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.