یہ ہم جو حرف گزیدہ کتاب رکھتے ہیں
یہ ہم جو حرف گزیدہ کتاب رکھتے ہیں
اسی میں عہد زیاں کا حساب رکھتے ہیں
ہے اپنی عمر گزشتہ ہمیں عزیز بہت
بغل میں پارۂ عہد شباب رکھتے ہیں
تو اور شیخ سے کیا پوچھتا میں اس کے سوا
شراب تھوڑی سی عالی جناب رکھتے ہیں
اسی پہ تکیہ نشیں ہیں شہان ماہ و نجوم
جو بوریا ترے خانہ خراب رکھتے ہیں
پھر اس میں آرزو و جستجو کا مطلب کیا
وہ زندگی جو مثال حباب رکھتے ہیں
ہماری مشک محبت نہ خشک ہوگی کبھی
سرشک خوں سے اسے ہم پر آب رکھتے ہیں
اب اور دولتیں کیا چاہئیں فقیروں کو
نہ دل میں خوف نہ آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں
یہ اہل شہر بہت لائے خوش جمالوں کو
کہاں وہ حسن میں تیرا جواب رکھتے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں ہیں تو حضور شاہ مگر
دلوں میں آرزوئے انقلاب رکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.