یہ ہجر کا موسم بھی گزر کیوں نہیں جاتا
یہ ہجر کا موسم بھی گزر کیوں نہیں جاتا
جاتا ہوا لگتا ہے مگر کیوں نہیں جاتا
بہتا ہوں تو میری کوئی گہرائی بھی ہوگی
دریا کی طرح خود میں اتر کیوں نہیں جاتا
لازم ہے کہ جاگے کبھی بچہ کی طرح بھی
یے شہر کسی خواب سے ڈر کیوں نہیں جاتا
ملبے سے نکل آتا ہے آسیب کی مانند
لوگوں کی طرح خوف بھی مر کیوں نہیں جاتا
اس کنج میں مدت سے بہار آئی نہیں ہے
یہ باغ مری آنکھ میں بھر کیوں نہیں جاتا
یہ بھید بھی کھلنے نہ دیا در بدری نے
گھر کے لئے جاتا ہوں تو گھر کیوں نہیں جاتا
ملبوس سے کیوں منت یکجائی ہے تابشؔ
میں ٹوٹ چکا ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا
- کتاب : اگر میں شعر نہ کہتا (Pg. 83)
- Author :عباس تابش
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.