Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے

نظیر اکبرآبادی

یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے

نظیر اکبرآبادی

MORE BYنظیر اکبرآبادی

    یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبھک رہا ہے

    فلک پہ سورج بھی تھرتھرا کر منہ اس کا حیرت سے تک رہا ہے

    کھجوری چوٹی ادا میں موٹی جفا میں لمبی وفا میں چھوٹی

    ہے ایسی کھوٹی کہ دل ہر اک کا ہر ایک لٹ میں لٹک رہا ہے

    وہ نیچی کافر سیاہ پٹی کہ دل کے زخموں پہ باندھے پٹی

    پڑھی ہے جس نے کہ اس کی پٹی وہ پٹی سے سر ٹپک رہا ہے

    وہ ماتھا ایسا کہ چاند نکھرے پھر اس کے اوپر وہ بال بکھرے

    دل اس کے دیکھے سے کیوں نہ بکھرے کہ مثل سورج چمک رہا ہے

    وہ چین خود رو کٹیلے ابرو وہ چشم جادو نگاہیں آہو

    وہ پلکیں کج خو کہ جن کا ہر مو جگر کے اندر کھٹک رہا ہے

    غضب وہ چنچل کی شوخ بینی پھر اس پہ نتھنوں کی نکتہ چینی

    پھر اس پہ نتھ کی وہ ہم نشینی پھر اس پہ موتی پھڑک رہا ہے

    لب و دہاں بھی وہ نرم و نازک مسی و پاں بھی وہ قہر و آفت

    سخن بھی کرنے کی وہ لطافت کہ گویا موتی ٹپک رہا ہے

    وہ کان خوبی میں چھک رہے ہیں جواہروں میں جھمک رہے ہیں

    ادھر کو جھمکے جھمک رہے ہیں ادھر کا بالا چمک رہا ہے

    صراحی گردن وہ آبگینہ پھر آگے سینہ بھی جوں نگینہ

    بھرا ہے جس میں تمام کینہ کہ جوں نگینہ دمک رہا ہے

    کچیں وہ کچھ کچھ ثمر درختی کچھ ان کی سختی وہ کچھ کرختی

    ہیں جس نے دیکھے وہ پھل درختی کلیجہ اس کا دھڑک رہا ہے

    وہ سرخ انگیا جو کس رہی ہے وہ چس رہی ہے اکس رہی ہے

    کچھ ایسے ڈھب سے وہ کس رہی ہے کہ اس کا کسنا کسک رہا ہے

    وہ پیٹ دل کو لپیٹ لیوے وہ ناف جی کو سمیٹ لیوے

    مزار جی کا جھپیٹ لیوے کچھ ایسا پیڑو پھڑک رہا ہے

    وہ پیٹھ گوری کمر وہ پتلی غضب لگاوٹ وہ پھر سرین کی

    اب آگے کہئے تو کیا کہوں میں کہ ہوش اس جا ٹھٹک رہا ہے

    فقط وہ چمپے کی اک کلی ہے کچھ اک مندی ہے کچھ اک کھلی ہے

    سلاخ سونے کی اک ڈلی ہے کہ گویا کندن دمک رہا ہے

    وہ پیاری رانیں وہ گول ساقیں وہ کف ملائم وہ نرم پہنچے

    کڑی کڑی سے کھڑک رہی ہے کڑا کڑے سے کھڑک رہا ہے

    نظیرؔ خوبی میں اس پری کی کہوں کہاں تک ثنا بنا کر

    صفت سراپا میں جس کے لکھنے دل اب اسی سے اٹک رہا ہے

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے