یہ امتحان خوب ہے حسن شباب کا
یہ امتحان خوب ہے حسن شباب کا
لینا تھا دل بھی مجھ سے ہی خانہ خراب کا
آنکھوں سے دیکھنا ہے طریقہ حجاب کا
رہتا ہے دل میں جلوہ یہاں آفتاب کا
دو خلق کو نہ ربط عدو سے فریب مہر
اٹھنے دو روزگار سے ڈر انقلاب کا
مے بھی تھی آگ آتش حسرت ہوئی نصیب
اے کاش داغ سینہ میں ہوتا شراب کا
اٹھنا تھا اس کے رخ سے قیامت نقاب کا
عالم ہر ایک ذرہ میں ہے آفتاب کا
قطع وفا سے رفع شکایت محال ہے
ہاں سلسلہ ہے نالۂ دل پیچ و تاب کا
یہ حشر کیا ہوا ابھی میں نے کیا نہیں
کچھ بھی بیان اپنے غم بے حساب کا
مرتا ہوں رشک سے کہ مقدر ہوا تھا کیوں
محشر میں مجھ سے یار سے اٹھنا حجاب کا
لکھا ہے شوق وصل تو میں نے انہیں مگر
دھڑکا ہے نامہ بر کا تردد جواب کا
ساقی کے ساتھ جاگیں تو سوئیں بتوں کے ساتھ
لذت وہ جاگنے کی ہے یہ لطف خواب کا
رونے سے اپنی جا چکی ناکامیٔ ازل
نمناک ہو کر آئنہ تشنہ ہے آب کا
مغرور حسن ہیں انہیں کیا یاد راہ میں
مارا ہوا ہے کون نگاہ عتاب کا
دل کو جدائیٔ صنم اس پر شکیب حیف
خوگر نہ ہو گیا ہو یہ کافر عذاب کا
کہنے سے قبل چہرہ کا رنگ اڑ گیا یہاں
سننے سے پہلے سمجھے وہ حال اضطراب کا
نیرنگیٔ طلسم تمنا کو کیا کہوں
عالم دکھا رہا ہے زلیخا کے خواب کا
معدوم ہو ذکیؔ ہے اگر شوق وصل اصل
بعد فنا ہے بحر میں ملنا حباب کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.