یہ عشق ہے وحشت ہے کہ آشفتہ سری ہے
یہ عشق ہے وحشت ہے کہ آشفتہ سری ہے
جو کچھ ہے مرے سر پہ مگر تاجوری ہے
آنکھوں میں چمکتی ہے کشش اس کے بدن کی
جلتی ہے زمیں دھوپ کی ہر شاخ ہری ہے
ہر چارے سے بڑھتا ہے مرے زخم کا رسنا
لعنت ہے اگر وقت کی یہ چارہ گری ہے
ہر موج میں ہے اس کے بدن کے کئی جادو
وہ رشک قمر رشک جناں رشک پری ہے
امید بھی خود لوٹ کے اب آ نہ سکے گی
اس دور کے رہبر کی عجب راہبری ہے
ٹھہرا ہی نہیں دشت نوردی کا مسافر
عاشق کے مقدر میں فقط در بہ دری ہے
شرما کے شب غم مری بانہوں میں سمٹ آ
میں نے ہی ستاروں سے تیری مانگ بھری ہے
مجھ سے وہ ندیمؔ اب بھی تعلق نہ رکھیں گے
عادت ہے بری میری ہر اک بات کھری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.