یہ عشق ہوتا ہے بن سکھائے کہ اس کا کوئی نصاب کیسا
یہ عشق ہوتا ہے بن سکھائے کہ اس کا کوئی نصاب کیسا
ہر اک ہے اس راہ کا مسافر فقیر کیسا نواب کیسا
اصول ہے یہ دیار دل کا کہ آنے والا گیا نہ واپس
ہر اک ستم مسکرا کے سہنا سوال کیسا جواب کیسا
سکون دل کا مقام پوچھو وفا کی منزل کے راہیوں سے
کٹھن ہے ہر دن مسافتوں کا یہ رتجگوں کا عذاب کیسا
ہوا ہے چرچا زمانے بھر میں تمہاری بے نام چاہتوں کا
تو مجھ سے کیوں تم چھپا رہے ہو نگاہوں میں ہے یہ خواب کیسا
وفا کی راہوں پہ چل پڑے ہو تو دیکھو دل کو سنبھالے رکھنا
قدم قدم درد نارسائی یہاں تھکن کا حساب کیسا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.