یہ جو میں ہوں کوئی دھوکہ ہی سہی یوں ہی سہی
یہ جو میں ہوں کوئی دھوکہ ہی سہی یوں ہی سہی
جسم کی قبر کا کتبہ ہی سہی یوں ہی سہی
خاک پڑتی رہی کتنے ہی زمانوں کی مگر
زخم دل آج بھی تازہ ہی سہی یوں ہی سہی
در و دیوار سے لپٹا ہوا یہ سناٹا
شور کرتا ہوا قصہ ہی سہی یوں ہی سہی
آخر کار مجھے راکھ تو ہو جانا ہے
ایک پل کے لئے شعلہ ہی سہی یوں ہی سہی
غم دنیا بھی مرے دل کے سمندر میں گرا
آج کچھ درد زیادہ ہی سہی یوں ہی سہی
کم سے کم اس سے ملاقات تو ہو جاتی ہے
خواب حجرے کا دریچہ ہی سہی یوں ہی سہی
اس کی چھاؤں تلے پرکھوں کے زمانے گزرے
ہر شجر صورت شجرہ ہی سہی یوں ہی سہی
یاد آتا ہے کوئی ترک تعلق پر بھی
اور یہ بات ہمیشہ ہی سہی یوں ہی سہی
مطمئن ہوں کہ کوئی تو مرا نگراں ہے ظفرؔ
میرے پیچھے مرا سایہ ہی سہی یوں ہی سہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.