یہ جو سنا اک دن وہ حویلی یکسر بے آثار گری
یہ جو سنا اک دن وہ حویلی یکسر بے آثار گری
ہم جب بھی سائے میں بیٹھے دل پر اک دیوار گری
جوں ہی مڑ کر دیکھا میں نے بیچ اٹھی تھی اک دیوار
بس یوں سمجھو میرے اوپر بجلی سی اک بار گری
دھار پہ باڑ رکھی جائے اور ہم اس کے گھائل ٹھہریں
میں نے دیکھا اور نظروں سے ان پلکوں کی دھار گری
گرنے والی ان تعمیروں میں بھی ایک سلیقہ تھا
تم اینٹوں کی پوچھ رہے ہو مٹی تک ہموار گری
بے داری کے بستر پر میں ان کے خواب سجاتا ہوں
نیند بھی جن کی ٹاٹ کے اوپر خوابوں سے نادار گری
خوب ہی تھی وہ قوم شہیداں یعنی سب بے زخم و خراش
میں بھی اس صف میں تھا شامل وہ صف جو بے وار گری
ہر لمحہ گھمسان کا رن ہے کون اپنے اوسان میں ہے
کون ہے یہ؟ اچھا تو میں ہوں لاش تو ہاں اک یار گری
- کتاب : yani (Pg. 88)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.