یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو میں تنگ آ گیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں
مآل عشق انا گیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آ گیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیر سے
نہ جانے جھونک میں کیا کچھ اسے بتا گیا ہوں
مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزار جنوں
قدم جما نہ سکا رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.