یہ کیسی شب کے دھندلکوں کے آس پاس ہے شام
یہ کیسی شب کے دھندلکوں کے آس پاس ہے شام
بہت اداس ہے دیکھو بہت اداس ہے شام
ہمک رہی ہے تغیر کی تند شاخوں پر
شفق کے پھول سے لپٹی ہوئی سی باس ہے شام
چرا رہی ہیں خلائیں جو اس کی گود کا نور
سیاہ رات کے ڈر سے رہین یاس ہے شام
الجھ گئی ہے افق میں شفق کی انگڑائی
امڈ رہے ہیں دھندلکے تو بد حواس ہے شام
یہ سرخیوں میں سیاہی کے رینگتے ڈورے
دلیل خوف ہے اندازۂ ہراس ہے شام
یہ لمحے لمحے کے سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے
ضرور رمز مشیت سے روشناس ہے شام
تپش کو غم کی بجھائے ہے اشک شبنم سے
کسی غریب کی ٹوٹی ہوئی سی آس ہے شام
وہی فریب تمدن ہے پھر نصیب کے نام
کسی کا وقت پریشاں کسی کو راس ہے شام
گزر تو جائے گی لیکن غم سحر بن کر
شب دراز کی اک مختصر اساس ہے شام
پلٹ کے دیکھ ذرا زاویے بدل راہیؔ
تری نگاہ پہ مبنی ترا قیاس ہے شام
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.