یہ خبر آئی ہے آج اک مرشد اکمل کے پاس
یہ خبر آئی ہے آج اک مرشد اکمل کے پاس
ان کو دھمکایا کسی نے ریلوے سگنل کے پاس
حسن آوارہ کا اے ہم دم بھلا کیا اعتبار
آج بھٹناگر کے بس میں ہے تو کل متل کے پاس
ان کی وحشت سے یہ ظاہر ہو رہا ہے خود بہ خود
یہ اسی موضع میں رہتے ہیں جو ہے منگل کے پاس
باغباں کی اب توجہ ہے گلستاں کی طرف
پودے بڑھ کے خود لگائے ہیں کئی کٹہل کے پاس
اٹھ گیا بزم طرب سے وہ رقیب رو سیاہ
رفتہ رفتہ ہاتھ جب پہنچا مرا چپل کے پاس
رزم گہہ میں ان سے نظریں لڑ رہی ہیں بار بار
ہو رہا ہے ایک دنگل اور اسی دنگل کے پاس
لوگ ان کی بزم میں رہ کر بھی ہیں محروم دید
جاں بلب ہیں پیاس سے بیٹھے ہوئے ہیں نل کے پاس
دیکھیے یہ بادۂ رنگیں کی ادنیٰ سی کشش
شیخ صاحب اور کھسک کر آ گئے بوتل کے پاس
ناصح ناداں کا شکوہ کرنا ہے بالکل فضول
وہ تو پاگل ہے کوئی کیوں جائے پھر پاگل کے پاس
ہمت افزائی نہ جب عمال معمولی نے کی
پہنچی رشوت افسران درجۂ اول کے پاس
شوقؔ صاحب مونس تنہائی کی حاجت ہو گر
تو کسی دن بے تکلف چلئے سیوا دل کے پاس
- کتاب : intekhab-e-kalam shauq bahraichi (Pg. 89)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.