یہ خیال آتا ہے تنہائی میں اکثر مجھ کو
یہ خیال آتا ہے تنہائی میں اکثر مجھ کو
جی رہا ہوگا وہ کس طرح بھلا کر مجھ کو
تیرے کوچہ کی سکونت ہو میسر مجھ کو
لوگ بیٹھا ہوا دیکھیں ترے در پر مجھ کو
ان کے ہم راہ میں جاؤں بھی تو کیسے جاؤں
سب نظر آتے ہیں یوسف کے برادر مجھ کو
ٹھوکریں کھا کے سنبھلنے کا ہنر آیا ہے
کیوں نہ محبوب ہوں پھر راہ کے پتھر مجھ کو
تنگ دستی تھی مگر لوگ کشادہ دل تھے
یاد آتے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے چھپر مجھ کو
اس لیے میں کبھی غافل نہیں ہونے پاتا
وقت رہ رہ کے لگا دیتا ہے ٹھوکر مجھ کو
اس کی رحمت ہے زیادہ کہ خطائیں میری
مت دکھاؤ مرے اعمال کا دفتر مجھ کو
میں نہ سوؤں تو اسے نیند کہاں آتی ہے
میری ماں سوتی ہے ہر روز سلا کر مجھ کو
اس لیے دیکھ کے دشمن کو اکڑ جاتا ہوں
انکساری سے سمجھ لے نہ وہ کمتر مجھ کو
یوں نہ ہو ڈھونڈنی پڑ جائے تجھے راہ فرار
چھیڑنا بھائی مرے سوچ سمجھ کر مجھ کو
اپنی نظروں میں میں کچھ اور بھی گھٹ جاتا ہوں
پیش کرتا ہے کوئی جب بھی بڑھا کر مجھ کو
ہو گیا اور شب ہجر کا کٹنا مشکل
چھپ گیا چاند تری یاد دلا کر مجھ کو
اے جنوں کون سی منزل ہے یہ بتلا تو سہی
آسماں بھی نظر آتا ہے زمیں پر مجھ کو
اے شکیلؔ ان کی گلی ہے تری جاگیر نہیں
کس لیے ٹوکتا رہتا ہے تو اکثر مجھ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.