یہ کس مقام سے آخر پلٹ گیا ہے تو
مرے حبیب بتا کس جگہ چھپا ہے تو
حیات آ کے یہاں پر ٹھہرنے والی ہے
کسی کے پاؤں کی آہٹ پہ بولتا ہے تو
جہاں بھی شام ہوئی مجھ کو تیری یاد آئی
شب فراق میں سن آخری دعا ہے تو
گزرتا وقت کہاں خود کو بھی چھپا پایا
زمانہ جس میں عیاں ہے وہ آئینہ ہے تو
کسی نے دیکھا کہاں وصل کی گھڑی کا مزاج
ہماری جاں پہ بنی اور ہنس رہا ہے تو
کتاب قلب پہ سود و زیاں کی بات نہ لکھ
سواد درد ہے تو درد لا دوا ہے تو
کبھی جلائے مجھے اور پار اتارے کبھی
مرا خدا بھی ہے اور ناخدا ہے تو
ترے سوا مرے زخموں کا اندمال نہیں
مری خوشی سے مرے غم سے آشنا ہے تو
زمانے گزرے تو ایرجؔ نے بھی یہی سمجھا
کہ ابتدا سے جڑی میری انتہا ہے تو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.