یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے
یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے
ہم ایسے لوگ خود اپنے سفر کی گرد ہوئے
نجات یوں بھی بکھرنے کے کرب سے نہ ملی
ہوئے جو آئنہ سب کی نظر کی گرد ہوئے
یہ کن دکھوں نے چم و خم تمام چھین لیا
شعاع مہر سے ہم بھی شرر کی گرد ہوئے
سب اپنے اپنے افق پر چمک کے تھوڑی دیر
مجھے تو دامن شام و سحر کی گرد ہوئے
پکارو کہہ کے ہمیں چھاؤں جی نہ بہلے گا
بچے جو دھوپ سے پائے شجر کی گرد ہوئے
ہمیں بھی بولنا آتا ہے پھر بھی ہیں خاموش
کہ ہم ترے سخن مختصر کی گرد ہوئے
دھلا سا چہرہ بھی کچھ ماند پڑ گیا آخر
ہوئے نہ اشک تری چشم تر کی گرد ہوئے
شریر و تند ہوا تھی کہ رو معانی کی
تمام لفظ لب معتبر کی گرد ہوئے
یہ راہ کتنی پر آشوب ہے فضاؔ نہ کہو
قلم کی راہ چلے ہم ہنر کی گرد ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.