یہ کیا لطف شور فغاں رہ گیا
یہ کیا لطف شور فغاں رہ گیا
زمیں رہ گئی آسماں رہ گیا
ابھی نامہ بر کو روانہ کیا
ابھی کہہ رہا ہوں کہاں رہ گیا
ترے لطف نے کی یہاں تک کمی
جو پہلے یقیں تھا گماں رہ گیا
ملے خاک میں یوں کہ مشہور ہے
مٹے یوں کہ مٹنا نشاں رہ گیا
وہی گردشیں ہیں وہی چال ہے
ستم کون سا آسماں رہ گیا
رہی آشنائی فقط نام کی
وہ نام آشنائے زباں رہ گیا
میں واماندہ اور کہہ رہا ہے جرس
رہا جو پس کارواں رہ گیا
مرا نالہ برق جہاں سوز ہے
اگر یوں ہی آتش فشاں رہ گیا
بہت دور پہنچیں نگاہیں ولے
وہ پردے میں اب بھی نہاں رہ گیا
یہ کاہل ہوں سالکؔ غم ہجر سے
وہیں کا رہا میں جہاں رہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.