یہ کیوں کہوں کہ انہیں حال دل سنا نہ سکا
یہ کیوں کہوں کہ انہیں حال دل سنا نہ سکا
نظر میں تھا وہ فسانہ جو لب تک آ نہ سکا
مجھے کبھی خلش دل کا لطف آ نہ سکا
نظر اٹھی بھی تو ان سے نظر ملا نہ سکا
گناہ گار محبت کو سب نے بخش دیا
کہ یہ گناہ کسی کی سمجھ میں آ نہ سکا
مرے خیال میں تخلیق دل کا راز یہ ہے
کہ عشق وسعت کونین میں سما نہ سکا
تری تلاش میں نکلا ہے دیکھتے کیا ہو
وہ بد نصیب جو اپنا سراغ پا نہ سکا
وہی نظر ہے وہی دل وہی تمنائیں
جہان عشق کو خود عشق بھی مٹا نہ سکا
وہی فسانۂ دل ہے وہی حکایت شوق
جسے وہ سن نہ سکے اور میں سنا نہ سکا
بڑی کشش ہے ترے سنگ در میں میرے لیے
سر نیاز اٹھایا تو دل اٹھا نہ سکا
یہ دل ہے اور یہ جان حزیں قصور معاف
تری نظر کا تقاضہ سمجھ میں آ نہ سکا
مجھے تو حشر تک اس کی نجات میں شک ہے
گناہ عشق جسے آدمی بنا نہ سکا
یہ عشق ہے کہ جنوں اضطراب ہے کہ سکوں
میں دل کو بھول گیا دل تجھے بھلا نہ سکا
یقین تھا شب وعدہ ضرور آؤ گے تم
سحر تک ایک ستارہ بھی جھلملا نہ سکا
ترا کرم کہ مجھے سوز زندگی بخشا
مری خطا کہ اسے زندگی بنا نہ سکا
فریب عشق نے آنکھیں سی کھول دیں شاہدؔ
میں اس کے بعد کسی کا فریب کھا نہ سکا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.