یہ مانا چشم نم سے قافلے اشکوں کے تر نکلے
یہ مانا چشم نم سے قافلے اشکوں کے تر نکلے
مزہ تب ہے کہ اشکوں کی جگہ خون جگر نکلے
بنایا تھا جنہیں ہم راز ہم نے دل کی دھڑکن کا
وہ فرزانے خود اپنی آگہی سے بے خبر نکلے
فقیہ شہر کو سمجھا تھا ہم نے بھولے بھالے ہیں
مگر قد سے کہیں دو چار گز وہ بیشتر نکلے
رقیبوں کے نشانے سے فصیل عشق کیا گرتی
حسینوں کے مگر کچھ وار آخر کارگر نکلے
ڈبویا ناخداؤں نے سفینہ مل کے امت کا
قدم دو چار آگے رہزنوں سے راہبر نکلے
اشارہ تیری نظروں کا بھی تھا لیکن سر محشر
سبھی الزام اے رشک قمر میرے ہی سر نکلے
چلو ہم ہی نکل جائیں گے مثل خار گلشن سے
کسی صورت تری حسرت بھی اے بیداد گر نکلے
ہمارے عشق کو اب آزما لے جس کا جی چاہے
کفن بردوش مقتل میں ترے شوریدہ سر نکلے
اسی کے حسن بے پروا کو دیتا ہوں دعائیں شیخؔ
کہ جس کے فیض سے میری غزل کے بال و پر نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.