یہ مے کشی کا سبق ہے نئے نصاب کے ساتھ
یہ مے کشی کا سبق ہے نئے نصاب کے ساتھ
کہ خون دل ہمیں پینا ہے اب شراب کے ساتھ
بس اس یقین پہ ہوتی ہیں لغزشیں اکثر
کہ رحمتوں کا بھی داتا ہے تو عذاب کے ساتھ
یہ قربتوں کا اشارہ ہے یا جدائی کا
جو زرد پھول ملا ہے ترے جواب کے ساتھ
ذرا وہ ساتھ بھی چلتے ہیں لوٹ جاتے ہیں
حجاب ٹوٹ رہے ہیں مگر حجاب کے ساتھ
کہیں ہے تنگی سبو کی کہیں فراوانی
تو پھر گرفت بھی مولا اسی حساب کے ساتھ
اگر رقیب نہیں ہے تو کون ہے وہ شخص
دکھائی دیتا ہے جو آج کل جناب کے ساتھ
خیال سود و زیاں اور حصول منزل عشق
زوال عمر میں جیسے کوئی شباب کے ساتھ
فقط یوں شور مچانے کا فائدہ کیا ہے
سزا بھی دینا ضروری ہے احتساب کے ساتھ
ہمارے ہو تو ذرا کھل کے اعتماد کرو
نیا سوال اٹھاتے ہو کیوں جواب کے ساتھ
یہ اپنے آپ کو پانا ہے تجھ کو کھونا کیوں
تمام عمر کٹی ہے اس اضطراب کے ساتھ
یہ سب غروب کے آثار ہیں عیاں عادلؔ
کہ سائے بڑھنے لگے ڈھلتے آفتاب کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.