یہ نقش ہم جو سر لوح جاں بناتے ہیں
یہ نقش ہم جو سر لوح جاں بناتے ہیں
کوئی بناتا ہے ہم خود کہاں بناتے ہیں
یہ سر یہ تال یہ لے کچھ نہیں بجز توفیق
تو پھر یہ کیا ہے کہ ہم ارمغاں بناتے ہیں
سمندر اس کا ہوا اس کی آسماں اس کا
وہ جس کے اذن سے ہم کشتیاں بناتے ہیں
زمیں کی دھوپ زمانے کی دھوپ ذہن کی دھوپ
ہم ایسی دھوپ میں بھی سائباں بناتے ہیں
خود اپنی خاک سے کرتے ہیں موج نور کشید
پھر اس سے ایک نئی کہکشاں بناتے ہیں
کہانی جب نظر آتی ہے ختم ہوتی ہوئی
وہیں سے ایک نئی داستاں بناتے ہیں
کھلی فضا میں خوش آواز طائروں کے ہجوم
مگر وہ لوگ جو تیر و سناں بناتے ہیں
پلٹ کے آئے غریب الوطن پلٹنا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ اب گھر کہاں بناتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.