یہ نمائش یہ تماشے نہیں اچھے لگتے
یہ نمائش یہ تماشے نہیں اچھے لگتے
ہوں مسائل تو نظارے نہیں اچھے لگتے
سرخ لب سرمئی آنکھیں یہ سنورنا سجنا
مفلسی میں یہ دکھاوے نہیں اچھے لگتے
تو مجھے بھوک بھی سہہ لینے کا عادی کر دے
اب مہاجن کے تقاضے نہیں اچھے لگتے
میری غربت نے مجھے بخشا اندھیروں کا مزاج
ورنہ کس کو یہ اجالے نہیں اچھے لگتے
یہ تو سچ ہے کہ وہ اخلاص سے ملتا ہے بہت
پھر بھی کچھ اس کے ارادے نہیں اچھے لگتے
رت بدلتے ہی ہر اک ذہن بدل جاتا ہے
دھوپ کو روکتے سائے نہیں اچھے لگتے
یہی بہتر ہے کماں نسل جواں کو دے دو
بوڑھے ہاتھوں سے نشانے نہیں اچھے لگتے
میری صدیوں کا بھرم ٹوٹ چکا ہے شہزرؔ
اب یہ ہنستے ہوئے لمحے نہیں اچھے لگتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.