یہ پڑاؤ تو اک بہانہ تھا
یہ پڑاؤ تو اک بہانہ تھا
ہم نے رخت سفر گنوانا تھا
جب گیا تھا تباہ کر کے مجھے
اس کا انداز فاتحانہ تھا
جس نے پتھر سے سازشیں کی تھیں
ایسے شیشے کو ٹوٹ جانا تھا
کوئی تازہ نگاہ کیا کرتی
روگ دل کا بہت پرانا تھا
ضبط کی بھینٹ چڑھ گئے آخر
ہم کو ناموس غم بچانا تھا
راستہ کوئی تو نکلتا ضرور
دھند کے پار ہم کو جانا تھا
بھید خود اپنا ہم سمجھ نہ سکے
اور کس کا سراغ پانا تھا
ہر بگولہ ہوا رہین سفر
کیا ہواؤں کا تازیانہ تھا
ایک دن بے صدا جزیروں سے
اپنی جانب پلٹ کے آنا تھا
اس نے اپنی حفاظتوں کے لیے
خط فاصل ہمیں بنانا تھا
کیوں سوالی ہو چاند کے انصرؔ
اپنے گھر میں دیا جلانا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.